حالم کی چوتھی قسط پر اجالا خورشید کا ایک پیارا اور جامع تبصرہ

میراث پدر من
چوتھا باب
چوتھا خواب
تالیہ مراد کے باپ کی میراث سے شروع ہوتی سب کی کہانی۔
"گدلے پانیوں کے سنگم" پہ "گھائل" ہوئی "غزال" نے جانا کہ اس کا "شکارباز" ہونا ہی دراصل "میراث پدر من" ہے۔
وہی چابی جو ننھی "تالیہ" کے گلے سے اتری تو اس کی یاداشت لے گئی تھی وہ آخر اس کے پاس واپس لوٹ آئی اور ساتھ ہی اسکی بچپن کی یاداشت بھی۔اور اسے بتایا کہ وہ چابی ،وہ لاکٹ دراصل اس کے باپ کی میراث تھا۔اور صرف وہی نہیں، شاید کوئی خزانہ بھی،شاید نہیں یقیناً کیونکہ حالم نے شاید اسے خواب میں دیکھ لیا۔ مگر کیا وہ خزانہ واقعی اس کے باپ کی میراث ہے بھی؟ کیا پمبورو واقعی صرف شکارباز تھے یا تالیہ کی رگوں میں ماہر شکاربازوں کے ساتھ ساتھ چوروں کا خون بھی دوڑتا ہے؟ یونہی تو نہیں اس کو اپنے خوابوں کا جزیرہ حاصل کرنے کے لیے صرف 'چوری' کا راستہ نظر آیا ہے، کیا معلوم یہ بھی اس کے باپ کی میراث ہی ہو۔ اور وہ خزانہ اس کی نہیں، دراصل کسی اور کی ملکیت ہو۔
جیسے "فاتح رامزل" کے باپ کی میراث تاریخی محل "سن باؤ" ہے، سن باؤ یعنی تین خزانے۔ کیا معلوم وہاں واقعی خزانے چھپے ہوں، جن کی سب کو تلاش ہے۔ دولت کسے اچھی نہیں لگتی لیکن ہر خزانہ دولت ہی تو نہیں ہوا کرتا۔ مگر کون جانے؟

اولاد کیسا خزانہ ہوتی ہے اور وہ بھی پہلی۔ اور جو یہ خزانہ کھو جائے تو دل خون کے آنسو روئے۔ چھوٹی سی آریانہ کیسے کھیلتی کودتی مسکراتی ، کھو گئی کوئی اس کے باپ سے پوچھے کہ صرف وہ جانتا ہے اس پہ کیا گزری؟ اس بیٹی کو وراثت تک دینے کی تو نوبت ہی نہ آئی تھی مگر تحفے میں اس نے اسے شاہزادی "تاشہ آگاپووا" سے ملوایا تھا۔ جو کہ تالیہ بنی تھی۔ اور آریانہ کو بہت پسند تھی مگر اس کے باپ کو وہ شدید بری لگتی ہے۔ کیونکہ وہ بھی ایک بار دکھائی دے کہ غائب ہو گئی تھی۔ تبھی وہ اس کو چار باتیں سناتا ہے تو بھلے ہی وہ شاہزادی "تاشہ آگا پووا" جس نے "تاج" پر اپنے کام کو فوقیت دی تھی، مگر وہ اسے باور کرا دیتی ہے کہ ہاں وہ تھی اس کے چارم سے "گھائل غزال" مگر بات جب عزت نفس کی آتی ہے تو وہ "شکارباز" بن کے دکھا دیتی ہے۔ کیونکہ حالم کے خواب جھوٹے نہیں ہوتے اور وہ اسے بتا چکے ہیں کہ ایک دن فاتح رامزل نے گدلے پانیوں پہ کھڑے ہو کے کہنا ہے کہ اسے اس کی "ضرورت" ہے۔( پھر اس کے بعد شاید کبھی اسے "داتن پدوکا" کو سرکاری اعزاز دلوانے کا موقع بھی مل جائے )۔

اونہوں۔۔ بعض اوقات منہ سے نکلی باتیں واقعی پوری ہو جایا کرتی ہیں اور کچھ دعائیں بھی، بھلے وہ دیکھنے میں کتنی ہی ناممکن نظر آتی ہوں ۔ "چیزیں جتنی ناممکن ہوتی ہیں، اتنی ہی ممکن بھی تو ہوتی ہیں نا۔"

جیسے "ایڈم" کے تایا کہ دعا۔ اس کی ماں کو لگتا ہے کہ پوری ہوگی۔اور وہ خزانوں کا مالک کہلائے گا۔ معصوم مگر بہادر اور ذہین ایڈم، یہ ہم نے جانا اس کے فوج والے ماضی سے،کہ اپنے فرض کو پورا کرنا بھی جانتا ہے وہ،اور درد دل بھی ہے اس کے پاس۔ نادیہ، ایک پدر سے کھو چکی بچی کی جان اس نے بچائی اور اعزاز ملا کسی اور کو، کیونکہ وہ "اورنگ اصلی" تھا۔ کالے گورے کا امتیاز مسلمان سب سے بڑھ کے ہی کرتے ہیں، وہی جن کے توانکو( صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے کہا تھا کسی کالے کو کسی گورے پر فوقیت نہیں اور انہون نے ہی کہا تھا کہ سچ اور "حق" پہ ڈٹ جاؤ۔ جو تمہارا حق ہے،وہ کسی کو چھیننے نہ دو۔پھر بھلے ہی نوکریاں چلی جائیں ۔ نقصان زمانے میں ہوتا ہے اور نظر بھی آتا ہے۔ سچ بول کر جو سکون دل کو حاصل ہوا ہوتا ہے،وہ ظالموں کے ظلم سے کھو بھی جاتا ہے، مگر کیا معلوم خدا نے تمہاری قسمت میں کوئی خزانہ ہی لکھا ہو۔ ماں کی دعا کہتی ہے نا!
اور کچھ لیانہ صابری کی اولاد جیسے بد قسمت بھی ہوتے ہیں، جو دعاؤں والے ہاتھ خود اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیتے ہیں ۔ان کے ہاتھ جو صرف دعا کے لیے اٹھنے چاہئیں، ان کی کمائی پر نظر رکھتے ہیں، بھلے وہ کیسے بھی حاصل کی گئی ہو۔ جیسےتالیہ مراد کو سمیع جیسے شخص نے اسکامر بنا دیا ویسے ہی لیانہ صابری کو اسکی اولاد نے۔ اور تالیہ جو کسی سے نہیں ڈرتی مگر اس پہلے دھوکے باز سے،جس نے اسے دھوکا دینا سکھا دیا۔ مگر اور کسی سے نہیں، نا ایڈم سے جو اس کا راز بھی جان چکا ہے، اوہ اس کو تو اس نے اپنا "ساتھی" بنا لیا نہ، فاتح رامزل کی "حفاظت" کے لیے، جو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی دراصل کر ہی رہی ہے۔ اور نا ہی اشعر جیسے دی چوہے ہرن سے، جسے اس کے باپ نے میراث میں اپنوں کو دھوکا دے کے ان کے "مقابل" آجانا سکھایا ہے، بھلے اس کے لیے کیسے ہی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑیں ۔ بھائیو! یہ سیاست ہے اور میری دوست اسے "سیاہ ست" کہتی ہے۔ یہاں سب کو گھی میں لتھڑنا ہوتا ہے اور وہ سیدھی انگلی سے نہیں نکلتا۔سب اپنی اپنی باری "کارڈز" کھیلتے ہیں پھر راستہ سیدھا ہو یا ٹیڑھا۔
جیتنے والے لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں ۔۔
ایک وہ جنہیں اپنی فتح کا "یقین" ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ دو قدم آگے رہتے ہیں، "تالیہ" جیسے۔
دوسرے وہ، جن کو جیتنے کا یقین تو نہیں، مگر "امید" ہوتی ہے وہ اس کے لیے قربانیاں بھی دیتے ہیں اور کوشش بھی کرتے ہیں ۔ "فاتح " جیسے۔
تیسرے وہ جو "ہار" جانے کا یقین دل میں لیے آتے ہیں مگر کوشش پھر بھی کرتے ہیں اور شاید ماں کی دعا سے، مگر جیت جاتے ہیں ۔
جیت تینوں ہی جائیں گے اور "خزانہ" پا لیں گے؟ کامیابی کا ہما پرندہ ان کے سروں پہ گھومے گا بھی تو وہ ان کے لیے کیسا ہوگا؟
یہ ہم دیکھیں گے!
Previous Article

0 comments

Leave a comment

Availability