نمرہ احمد کے نئے ناول "حالم" پر تبصرہ "اجالا خورشید " کا ...
حالم۔۔۔خواب دیکھنے والا...
خواب۔۔۔زندگی کا ایک بہت اہم حصہّ،ایک دلچسپ حقیقت اور ایک انجانی مسٹری جیسے۔
"خوابوں کی تعبیر"،کسی میگزین کا سیکشن کھولیں، انجانے ان گنت خواب اور ان کے ملتے جلتے جواب،خواب کبھی مختلف، کبھی ایک جیسا ہی بار بار ۔
کوئی اپنا پیارا مر گیا،یا کچھ برا ہوا تو مل کے بیٹھے لوگوں کو خیال آیا،فلاں دن میں نے ایسا خواب دیکھا تھا تو اچھا۔۔اس کا یہ مطلب تھا؟ مرے ہوئے لوگ کسی کے خواب میں آئے، کسی نے ان کو اچھے حال میں دیکھا کسی کو کسی نے برے حالوں میں۔کسی کو کسی نے کوئی ضروری پیغام دیا،کوئی ادھورا کام پورا کرو تو کسی نے کوئی شکوہ کیا۔یونہی کچھ اچھا ہونے کو کسی خواب سے ریلیٹ کر لیا۔ یا پھر کوئی ایسی خواہش جو اصل میں پوری نہ ہو سکتی تھی وہ خواب میں پوری ہوئی۔
ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال نے عقل والوں کو بہت تنگ کیا۔وہ کھوج میں لگے رہے۔ سائنس والوں نے کہا انسان کا شعور سوجاتا ہے تو "لاشعور"(سب کونشئیس)جاگ جاتا ہے۔یہ سب دماغ کے نیوروٹرانسمیٹرز اور ہارمونز کی کارستانی ہے۔
شاعروں نے کہا اے ری محبت "اب کے ہم بچھڑے تو شاید خوابوں میں ملیں۔۔
دین والوں نے ذرا غور کیا تو ان کو جواب رسول(صلی اللہ الیہ والہ وسلم) کی سکھائی سونے کی دعا میں ملا۔۔۔
الّهم باسمك اموتُ واحیاء
اے اللہ میں مرنے اور اس کے بعد خیر سے اٹھنے کی دعا کرتا ہوں۔
یہ رہا جواب! جب کوئی سو گیا تو گویا وہ مرگیا۔ مر گیا مطلب، اس کی روح جسم کے ساتھ نہ رہی۔۔دل،دماغ، ہارمونز،نیوروٹرانسمیٹرز سب اس ایک روح کے مستعار جسم سے جڑے ہیں۔ روح کو زمان و مکاں کی قید نہیں ۔سب باتوں میں سے میرے دل نے اسی ایک بات پہ یقین کیا۔ کہ خواب صرف ایک سوچ نہیں یہ ایک پیرالل یونیورس ہیں۔ جس وقت ،اور جس جگہ پہ انسانی جسم نہیں پہنچ سکتا، وہاں کی مسٹریز حل کرنے یہ روح نکل جاتی ہے۔ وہ دکھاتی ہے جو اصل نہیں ہوتا لیکن ہوتے ہیں "سمبلز"، اور پھر جب اسکا کام ہوجائے،لوٹ آتی ہے۔
سو "حالم" خاص ہے،یہ "نارمل" نہیں ہے!
پہلا باب۔۔ پہلا خواب۔۔۔۔
"گدلے پانیوں کا سنگم"
یعنی ۔۔کوالالمپور ایسے نام کا یہ ایک ہی شہر ہے، دو ٹون ٹاورز اس کی پہچان ہیں اور دو اہم لوگ بھی اس میں پائے جاتے ہیں "حالم"۔۔۔ "پہلے تاثر سچ نہیں ہوتے" سعدی نے کہا تھا۔ ایک پرائیویٹ انویسٹیگیٹر حالم خوبصورت مردانہ آواز والا،کیا تم نے سمجھا کہ کوالالمپور کا پہلا ٹاور اتنا عام سا ہوگا؟ پیاری سی معصوم سی تالیہ مراد۔ کیا تم نے سمجھا کہ وہ اتنی عام سی ہوگی؟ مگر پھر تم نے جانا کہ وہ تو "نارمل" تھی ہی نہیں، کیونکہ وہ تو "حالم" تھی۔ خواب دیکھنے والی، سچے خواب،ویژنز جو اس کو مختلف بناتے تھے،ایک اسکام آرٹسٹ ایک فنکار، جھوٹ اور بہروپ کہ خالق، جادوگر اور ساحر، چالاک چورنی جو جانتی تھی کہ وہ غلط ہے۔۔۔۔اور حضرت علی(رضی اللہ تعالی عنہ)نے کہا تھا، "وہ گناہ جس سے تمہیں رنج ہو،اس نیکی سے بہتر ہے جو تمہیں خود پسند بنا دے"
اور اسکی داتن ،اسکا خیال رکھنے والی اور مزے کی باتیں کرنے والی ایک دوسری آرٹسٹ، زیورات ،نوادرات کاپی کر لینے والی۔۔۔
دوسرا ٹاور، دی "فاتح رامزل" لاکھوں دلوں کی دھڑکن، پیاری باتیں کرنے والا ،لاکھوں میں ایک،"اچھا" سیاستدان۔( لیکن اب کہ ہم نہیں بھولے سعدی، کہ "پہلے تاثر سچ نہیں ہوتے"، اور ہاں ہمیں یاد ہے جہان! کہ "لوگ وہ نہیں ہوتے جو وہ نظر آتے ہیں ")
اور ان دونوں کے قدموں میں پڑی وہ پراسرار curse ذدہ چابی جس کے حصے ان دونوں میں بٹے ہیں ۔
اور ان دونوں پہ منڈلاتا نیلی آنکھوں والا سرخ پرندہ ، کامیابی کا نشان، اور گدلے کیچڑ میں کھڑے وہ دونوں جن کا سنگم ضروری ہے، جنہیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے ۔
کیا برسوں پہلے بچھڑی آریانہ، تالیہ مراد ہے؟ اگر ایسا ہے تو وہ اپنے کونسے گاؤں کا بتاتی تھی اپنی یاداشت کھو جانے سے پہلے؟ اور اگر وہ نہیں ہے تو کیا وہ فاتح رامزل کو یقین دلا دے گی کہ وہ "ہے" اور یوں وہ اپنی منزل تک پہنچے گی؟ یا صرف منزل کی طرف جاتے اگلے اسٹیپ تک؟ یا وہ اسے غور سے دیکھتا "باڈی مین" اسے پہلی سیڑھی سے ہی نیچے گرا دے گا؟ فاتح رامزل کو کیوں اسکی ضرورت ہوگی؟ تالیہ مراد کا پہلے خواب کی مسٹری کا حل کیا ہوگا؟ اور کیا ہوگی اونچے خواب دیکھنے والے،"حالم" فاتح رامزل کے خوابوں کے راز جاننے کی وجہ۔۔۔
حالم ہم حالمین کو جگائے رکھتا ہے ۔۔۔
0 comments